قیام (Establishment)
وفاقی شرعی عدالت صدر مملکت کے حکم نمبر ۱سال ۱۹۸۰ءکے تحت معرضِ وجود میں آئی۔ اس حکم کے ذریعے دستور پاکستان ۱۹۷۳ء کے حصہ نمبر۷ میں باب ۳ (الف) کا اضافہ کیا گیا، جس میں وفاقی شرعی عدالت سے متعلق جملہ امور کا ذکر کیا گیا۔ یہ عدالت ایک ایسا ادارہ ہے جس کی نظیر پوری مسلم اُمہ میں ملنا دشوار ہے۔ اس ادارے کو دستور کی طاقتور شقوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دستورِ پاکستان کی تمہید میں واضح کیا گیا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتی ہی کائنات میں طاقت کا سرچشمہ ہے اور پاکستان کے عوام اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کو اُس کی معین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بطور امانت استعمال کریں گے۔ آئین کی شق ۲ الف واضح کرتی ہے کہ قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ قواعد و ضوابط آئین کا ایک لازمی جزو ہیں۔
عدالت کا فیصلہ عدالت عالیہ اور اس کی ماتحت عدالتوں کے لئے واجب التعمیل ہوگا
آئین کا آرٹیکل ۲۰۳ زز میں ذیل کہا گیا ہے:-
۲۰۳ز ز۔ آرٹیکل ۲۰۳۔د اور ۲۰۳۔و کے تابع، اس باب کے تحت اپنے اختیار سماعت کے استعمال میں عدالت کا کوئی فیصلہ کسی عدالت عالیہ پر اور اس کی ماتحت تمام عدالتوں کے لئے واجب التعمیل ہوگا۔
قواعد وضع کرنے کا اختیار
آئین کا آرٹیکل ۲۰۳ ی عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ عدالت کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لئے وہ (عدالت) خود قوانین وضع کرسکتی ہے۔ انہی اختیارات کے تحت وفاقی شرعی عدالت (طریقۂ کار) قواعد، ۱۹۸۱ء معرض وجود میں آئے۔
مفت قانونی معاونت
عدالتی قوانین کے مطابق اگر جیل سے اپیل دائر کی گئی ہو اور اپیل کنندہ اپنی نمائندگی کے لئے معاوضے کے عوض کسی وکیل کی خدمات حاصل نہ کرسکے تو عدالت اسے مفت قانونی معاونت دیتی ہے۔ اس معاملے میں وفاقی شرعی عدالت نے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ مفت قانونی امداد مفلس ملزم کو عموماً مفت قانونی امداد فراہم کرنے کی تنظیموں کے توسط سے ہوتی ہے اور عدالت بہت کم مواقع پر ایسی امداد کا معاوضہ ادا کرتی ہے۔
کوئی کورٹ فیس وصول نہیں کی جاتی
عدالت کے کام کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی پٹیشن یا اپیل میں کوئی کورٹ فیس نہیں لی جاتی۔ جب عدالت اپنے سوموٹو اختیارات کا استعمال کرتی ہے تو اس کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ عدالت کے کام میں معاونت کرنے والے وکلاء، علماء، سماجی کارکن، دانشوروں اور عوام الناس کی حوصلہ افزائی ہو۔ اسی نقطۂ نظر کے تحت پاکستان کے شہریوں سے کسی مسئلہ پر عوامی رائے جاننے کے لئے معروف اخبارات میں پبلک نوٹس شائع کرائے جاتے ہیں۔
عدالت کے منظورشدہ ججز کی تعداد
آئین کا آرٹیکل ۲۰۳ ج واضح کرتا ہے کہ عدالت چیف جسٹس سمیت زیادہ سے زیادہ آٹھ ججز پر مشتمل ہوگی جن میں علماء ججز بھی شامل ہیں جو کہ اسلامی قوانین پر پوری طرح عبور رکھتے ہوں۔
عدالت کی بینچ رجسٹریز
آئین کے آرٹیکل ۲۰۳ ج کی ذیلی دفعہ (۶) واضح کرتی ہے کہ عدالت کا صدر مقام اسلام آباد میں ہوگا، لیکن عدالت وقتاً فوقتاً پاکستان میں ایسے دیگر مقامات پر اجلاس کرسکے گی جو چیف جسٹس، صدر کی منظوری سے مقرر کرے۔مقدمات سے متاثرہ عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کی غرض سے وفاقی شرعی عدالت کی صدر مقام اسلام آباد کے علاوہ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بینچ رجسٹریاں قائم کی گئی ہیں۔ یہ بینچ رجسٹریاں متعلقہ صوبائی ہائی کورٹس کی عمارات میں قائم کی گئی ہیں۔ ہر صوبے سے متعلق کیسوں کا اندراج اور سماعت متعلقہ رجسٹری میں قلیل ہوتا ہے اور عدالتی اجلاس جلد جلد منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نہ ہو۔
شعبۂ تحقیق
اعلیٰ عدالتوں میں انتظامی امور کی نگرانی رجسٹرار، اضافی (ایڈیشنل) رجسٹرار، ڈپٹی رجسٹرار، اسسٹنٹ رجسٹرار اور سپرنٹنڈنٹس کرتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت میں انتظامی اُمور کا امتیازی پہلو ایک مکمل طور پر خودمختار تحقیقی (ریسرچ) برانچ ہے جو کہ ایک سینئر ریسرچ ایڈوائزر (گریڈ-۲۱)، ایک ریسرچ ایڈوائزر (گریڈ-۲۰) اور دیگر معاون عملے پر مشتمل ہے۔ شعبۂ تحقیق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وفاقی اور صوبائی قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اپنی مفصل تحقیقاتی رپورٹوں اور دیگر تحقیقی مواد کی مدد سے شریعت درخواستوں کی سماعت اور فیصلہ لکھنے کے دوران معزز ججز صاحبان کو مکمل معاونت فراہم کرتا ہے۔ عدالت کے کام کا طریقۂ کار یہ ہے کہ جب بھی کوئی شریعت درخواست یہاں دائر کی جاتی ہے تو سب سے پہلے عدالت ہذا کے سینئر ایڈوائزر اُس کا جائزہ لے کر اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ متعلقہ قانون یا اُس کی شق عدالت کے دائرئہ اختیار سماعت میں شامل ہے یا نہیں۔
مشیران کرام
قانونی تقاضے کے مدنظر عدالت ملک بھر کے مختلف مکاتبِ فکر کے معروف مشیران فقہ کی فہرست مرتب کرتی ہے۔ عدالت کا شعبۂ تحقیق کسی شرعی معاملے کے اندراج سے لیکر آخری فیصلے تک ان مشیران فقہ سے رابطے میں رہتا ہے۔ قانونی تقاضے کے مدنظر عدالت ملک بھر کے مختلف مکاتبِ فکر کے معروف مشیران فقہ کی فہرست مرتب کرتی ہے۔ عدالت کا شعبۂ تحقیق کسی شرعی معاملے کے اندراج سے لیکر آخری فیصلے تک ان مشیران فقہ سے رابطے میں رہتا ہے۔ دو عدد کُل وقتی تحقیقاتی (ریسرچ) افسران کے علاوہ ملک بھر سے مختلف مکاتبِ فکر کے مشیرانِ فقہ جو کہ اسلامی شعائر کے حوالے سے وسیع و دقیق علم رکھتے ہیں، کی عدالت میں فہرست مرتب کی جاتی ہے۔ جب کسی پٹیشن یا اپیل میں کسی شرعی مسئلے کے حوالے سے کوئی سوال عدالت کے سامنے اٹھایا جاتا ہے تو عدالت حسبِ ضرورت اپنی معاونت کے لئے اُن مشیرانِ فقہ کی خدمات سے بھی استفادہ کرتی ہے۔