دائرہ اختیار (Jurisdiction)

2

عدالت کے اختیارات

وفاقی شرعی عدالت کو اصل، نگرانی، اپیل اور نظرثانی معاملات پر فیصلے دینے کا اختیار حاصل ہے اور جو ریفرنس اسے دیا جائے اس پر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

اصل اور ازخود اختیارات

آئین کا آرٹیکل ۲۰۳-د عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر کسی قانون یا اُس کی کوئی شق کے حوالے سے یہ معاملہ آیا ہے کہ یہ اسلامی احکام کے خلاف ہے، تو وہ، کسی کی تحریک پر یا ازخود طور پر، اس کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے۔

نگرانی کے اختیارات

آئین کے آرٹیکل ۲۰۳ دد کے تحت عدالت حدود کے نفاذ سے متعلق کسی قانون کے تحت کسی فوجداری عدالت کی طرف سے فیصلہ شدہ کسی مقدمے کا ریکارڈ اس غرض سے طلب کرسکتی ہے اور اس کا جائزہ لے سکتی ہے کہ مذکورہ عدالت کے قلمبندکردہ یا صادر کردہ کسی نتیجہ، تفتیش، حکم سزا یا حکم کی صحت، قانونی جواز یا معقولیت کے بارے میں، اور اس کی کسی قانونی کارروائی کی باضابطگی کے بارے میں اپنا اطمینان کرسکے اور مذکورہ ریکارڈ طلب کرتے وقت یہ ہدایت دے سکے گی کہ جب تک اس ریکارڈ کا جائزہ نہ لے لیا جائے، کسی حکم سزا کی تعمیل روک دی جائے اور، اگر ملزم زیرحراست ہو تو، اس کو ضمانت پر یا اس کے اپنے مچلکہ پر رہا کر دیا جائے۔

عدالت مرافعہ کے اختیارات

عدالت درج ذیل نوعیت کے حدود کے کیسز جن پر حدود کے قوانین کا اطلاق ہوا ہو، عدالت مرافعہ کا کردار ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے:-عدالت درج ذیل نوعیت کے حدود کے کیسز جن پر حدود کے قوانین کا اطلاق ہوا ہو، عدالت مرافعہ کا کردار ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے:-
(الف)   جرائم برخلاف جائیداد (نفاذِ حدود) آرڈیننس، مجریہ ۱۹۷۹ء
(ب)   جرائم برخلاف زنا (نفاذِ حدود) آرڈیننس، مجریہ ۱۹۷۹ء
(ج)   جرائم برخلاف قذف (نفاذِ حد) آرڈیننس، مجریہ ۱۹۷۹ء
(د)   امتناع منشیات  (نفاذِ حدود) آرڈیننس، مجریہ ۱۹۷۹ء

نظرثانی کے اختیارات

آئین کا آرٹیکل ۲۰۳ ح عدالت کو اپنے دیئے ہوئے کسی فیصلے یا صادر کردہ کسی حکم پر نظرثانی کا اختیار دیتا ہے۔